Daily News
💥💥💥💥💥💫💥⭐
روزنامہ نیوز
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
19/July/202
آپ کو قرآن پاک پڑھنے کی ضرورت ہے‘، شعلہ بیان لیڈر نتیش رانے کو مسلم تنظیم نے بھیجا قرآن پاک کا مراٹھی ترجمہ
مہاراشٹر میں اس وقت ہندی اور مراٹھی زبان کا تنازعہ زوروں پر ہے۔ اس درمیان فڑنویس حکومت میں وزیر نتیش رانے کے ایک متنازعہ بیان نے ہلچل پیدا کر دی ہے۔ انھوں نے گزشتہ دنوں پانچ وقت کی اذان مراٹھی زبان میں دینے کا مشورہ دیا تھا۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مدارس میں مفت بندوقیں دی جاتی ہیں۔ اب ایک مسلم تنظیم نے نتیش رانے کو قرآن پاک کا مراٹھی ترجمہ پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ انھیں اس پاکیزہ کتاب کو سنجیدگی سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔
مہاراشٹر کے لاتور میں مسلم ویلفیئر ایسو سی ایشن نے نتیش رانے کو قرآن پاک کا یہ مراٹھی ترجمہ بذریعہ ڈاک بھیجا ہے۔ یہ جانکاری تنظیم سے منسلک مفتی فاضل نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے 18 جولائی کو دی۔ انھوں نے نتیش رانے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’انسان اپنی زبان سے پہچانا جاتا ہے۔ نتیش رانے صاحب! آپ کس زمرے سے تعلق رکھتے ہیں، آپ کی حیثیت کیا ہے، آپ کی اوقات کیا ہے اور آپ کتنے پڑھے لکھے ہیں، یہ آپ کی زبان سے سمجھ میں آ گیا ہے۔ آپ کو خاص طور سے ضرورت ہے قرآن پاک پڑھنے کی۔‘‘
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مفتی فاضل نے کہا کہ اس قرآن پاک میں لکھا ہے ’اے لوگو! اللہ سے ڈرو۔‘ جب آپ اس کو پڑھیں گے اور گہرائی سے سمجھیں گے تو آپ کو سب کچھ سمجھ آ جائے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ نتیش رانے اچھی سوسائٹی میں رہتے ہیں، لیکن پتہ نہیں اپنے سیاسی فائدے کے لیے کسی مذہب کے بارے میں غلط کیوں کہتے ہیں۔ کسی مذہب کو بدنام کرنا اور اس کے اوپر داغ لگانا، یا قرآن پاک پر انگلی اٹھانا، یا پھر مسلمانوں کی ٹوپی اور داڑھی کے اوپر بیان بازی کرنا، یہ سب انھیں زیب نہیں دیتا۔
*جمعہ کو دہلی سے لے کر بنگلورو تک تقریباً 100 اسکولوں کو ملی بم سے اڑانے کی دھمکی، ہر طرف افرا تفری*
اسکولوں کو دھماکہ سے اڑانے کی دھمکیاں کم نہیں ہو رہی ہیں۔ جمعہ کے روز تو دہلی سے لے کر ممبئی اور بنگلورو تک تقریباً 100 اسکولوں کو بم سے اڑانے کی دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔ بنگلورو میں کم از کم 40 اور دہلی میں 50 سے زائد اسکولوں کو یہ دھمکیاں ملیں، جس کے بعد ہر طرف افرا تفری پھیل گئی۔ سبھی اسکولوں میں تلاشی شروع ہو گئی اور بیشتر اسکولوں میں بچوں کو چھٹی دے کر گھر بھیج دیا گیا۔
دہلی میں جمعہ کی صبح سول لائنس واقع سینٹ زیویرس، پچھم وِہار واقع رچمنڈ گلوبل اسکول، روہنی واقع ابھینو پبلک اسکول اور روہنی واقع دی سورین اسکول سمیت تقریباً 50 اسکولوں کو بم سے اڑانے کی دھمکی ملی۔ یہ لگاتار چوتھا دن ہے جب دہلی کے اسکولوں کو ایسی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ اب تک یہ دھمکیاں محض افواہ ہی ثابت ہوئی ہیں، لیکن پھر بھی طلبا کے تحفظ کا خیال کرتے ہوئے جانچ ٹیمیں ہر گوشہ اور ہر کلاس کی اچھی طرح جانچ میں مصروف ہو گئی ہیں۔ دہلی کے اسکولوں کو مستقل مل رہی دھمکیوں سے بچوں، سرپرستوں و اساتذہ کے درمیان بے چینی و دہشت پھیل چکی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بنگلورو کے راج راجیشوری نگر اور کینگیری سمیت کئی علاقوں کے پرائیویٹ اسکولوں کو بم کی دھمکی والے پیغامات موصول ہوئے۔ بنگلورو شہر کی پولیس نے الرٹ ملنے پر اسکولوں میں کئی ٹیمیں تعینات کی ہیں۔ ’اسکول کے اندر بم‘ لکھا ہوا ای میل ’[email protected]‘ سے کئی اداروں کو بھیجا گیا تھا۔ بم کی دھمکی والے ای میل میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ اسکولوں میں ٹی این ٹی چھپایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں تشدد آمیز طریقے سے بتایا گیا تھا کہ دھماکہ کے بعد طلبا کا کیا حشر ہوگا۔
دہلی اور بنگلورو کے علاوہ ممبئی کے کچھ اسکولوں کو بھی دھمکیاں ملی ہیں۔ گزشتہ مہینے بھی ممبئی کے کم و بیش ایک درجن اسکولوں کو بم سے اڑانے کی دھمکیاں ملی تھیں۔ تازہ دھمکی کاندیولی کے سوامی وویک آنند انٹرنیشنل اسکول کو ملی ہے، حالانکہ اب تک ہوئی جانچ میں کچھ بھی مشتبہ نہیں ملا ہے۔ سوامی وویک آنند انٹرنیشنل اسکول کو بذریعہ ای میل یہ دھمکی دی گئی تھی۔ 2 دیگر اسکولوں کو بھی اسی طرح کی دھمکی ملی تھی اور سبھی دھمکیوں کے لیے ای میل کا ہی استعمال کیا گیا ہے۔ دھمکی ملتے ہی کاندیولی پولیس اور اینٹی بم اسکواڈ موقع پر پہنچے اور پورے احاطہ کی تلاشی لی، لیکن جانچ میں کچھ بھی نہیں ملا۔ ابتدائی جانچ کے بعد ہی پولیس نے اسے فرضی دھمکی قرار دے دیا۔ حالانکہ معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے جانچ جاری ہے۔ پولیس یہ بھی پتہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ ان دھمکی بھرے ای میلس کے پیچھے کون ہے اور مقصد کیا ہے۔
*برطانیہ سے قبل بھی کئی ممالک میں 16 سال کے نوجوانوں کو ووٹنگ کا حق حاصل، کچھ ممالک میں یہ عمر 21 سال*
برطانیہ میں ووٹنگ کے لیے کم از کم عمر 18 سال کو گھٹا کر اب 16 سال کر دیا گیا ہے۔ یعنی 16 اور 17 سال کے نوجوان کو بھی اب رائے دہی کا حق حاصل ہو گیا ہے۔ یہ فیصلہ برطانوی جمہوریت کی تاریخ میں ایک اہم موڑ قرار دیا جا رہا ہے۔ برطانیہ کے اسکاٹ لینڈ اور ویلس میں مقامی کونسل اور اسکاٹش پارلیمنٹ کے انتخابات میں پہلے سے ہی 16 سال کی عمر میں ووٹنگ کا التزام تھا، لیکن اب یہ پورے ملک میں نافذ ہوگا۔ برطانوی حکومت کے تازہ فیصلے کے بعد برطانیہ میں ووٹرس کی تعداد تقریباً 16 لاکھ بڑھ جائے گی۔ تقریباً 50 سال قبل برطانیہ میں ووٹنگ کی عمر 21 سال سے گھٹا کر 18 سال کی گئی تھی، اور اب یہ 16 سال ہونے سے اب تک کی سب سے بڑی ووٹنگ توسیع بتائی جا رہی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 6 کروڑ 80 لاکھ آبادی والے برطانیہ کے علاوہ بھی کئی ممالک ہیں جو پہلے سے ہی اپنے یہاں 16 سال کے نوجوانوں کو رائے دہی کا حق دے چکی ہیں۔ آسٹریا، برازیل، ارجنٹائنا، مالٹا، کیوبا، ایکواڈور، نکاراگوا اور برطانیہ کے ہی آئل آف مین، گویرنسے، جرسی اور فاکلینڈ آئس لینڈ جیسے علاقوں میں بھی 16 سال کی عمر سے ہی ووٹنگ کی اجازت مل جاتی ہے۔ ان ممالک میں کچھ مقامات پر یہ حق اختیاری ہوتا ہے، یعنی وہ چاہیں تو ووٹ دیں اور نہ چاہیں تو نہ دیں۔ کچھ ممالک میں ایک خاص عمر کے لوگوں کا ووٹ دینا لازمی بھی ہے۔ مثلاً برازیل میں 18 سے 70 سال تک کے اشخاص کو ووٹ لازمی طور پر ڈالنا ہوتا ہے، لیکن 16 اور 17 سال والوں کے لیے یہ اختیاری ہے۔
دنیا کے بیشتر ممالک میں ووٹ دینے کے لیے کم از کم عمر 18 سال ہے۔ ان ممالک میں ہندوستان بھی شامل ہے۔ دیگر ممالک کی بات کریں تو امریکہ، چین، جاپان، فرانس، جرمنی، روس، پاکستان، بنگلہ دیش، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، کناڈا، اسپین، ملیشیا، تھائی لینڈ، ایران، عراق، ترکی، میانمار، اسرائیل، مصر، اٹلی، نیدرلینڈس، ناروے، نائیجیریا، کینیا، فنلینڈ، سویڈن، ڈنمارک، یوکرین، کولمبیا، وینزوئیلا، مراقش، یوگانڈا، سنگاپور سمیت 180 سے زائد ممالک میں حق رائے دہی کے لیے کم از کم عمر 18 سال ہی ہے۔ آسٹریلیا، پیرو اور بولیویا میں تو نہ صرف ووٹنگ کے لیے کم از کم عمر 18 سال ہے، بلکہ یہاں ووٹ ڈالنا لازمی بھی ہے۔
کچھ ایسے ممالک، جہاں حق رائے دہی کے لیے کم از کم عمر کی حد 17 سال ہے، ان میں گریس، انڈونیشیا، جنوبی کوریا، تیمور-لیستے شامل ہیں۔ گریس میں جولائی 2016 سے ووٹنگ کی عمر 17 سال طے کی گئی ہے۔ یہاں ایک خاص اصول یہ ہے کہ اگر کسی انتخابی سال میں کسی شخص کی عمر 17 سال مکمل ہو رہی ہے، تو اسے ووٹنگ کی اجازت ہوتی ہے۔ انڈونیشیا میں ووٹنگ کے لیے عمر 17 سال ہے، لیکن اگر کوئی شادی شدہ ہے تو عمر کی کوئی حد نہیں لگائی جاتی۔ یعنی 17 سال سے کم عمر کے شادی شدہ لوگ بھی حق رائے دہی کا استعمال کر سکتے ہیں۔ جنوبی کوریا میں عام شہریوں کے لیے ووٹنگ کی کم از کم عمر 17 سال ہے، لیکن فوجیوں کے لیے یہ حد نہیں ہے۔ کسی بھی عمر کے فوجی حق رائے دہی کا استعمال کرنے کے مجاز ہیں۔
چند ممالک ایسے بھی ہیں جہاں ووٹنگ کے لیے کم از کم عمر 21 سال یا اس سے زیادہ ہے۔ ان ممالک میں متحدہ عرب امارات، سنگاپور، لبنان، عمان، کویت، سمووا، ٹونگا، ٹوکیلاؤ اور ناؤرو شامل ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں ووٹنگ کا حق سبھی شہریوں کو نہیں ملتا۔ وہاں ’الیکٹورل کالج‘ کے لیے الگ سے کم از کم عمر مقرر کی جاتی ہے اور یہ ہر امیرات کے حاکم طے کرتے ہیں۔ کویت میں ووٹنگ کے لیے عمر کی حد 20 سال ہے، لیکن حق رائے دہی وہی استعمال کر سکتے ہیں جو فوج یا پولیس میں نہیں ہیں۔
*معیشت کو بوسٹر ڈوز کی ضرورت، جی ایس ٹی میں اصلاحات کریں اور کارپوریٹ پرستی بند کریں: جے رام رمیش*
نئی دہلی: کانگریس کے سینئر لیڈر جے رام رمیش نے نُواما انسٹی ٹیوشنل ایکویٹیز کی حالیہ تحقیقاتی رپورٹ کے حوالے سے ہندوستانی معیشت کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی حکومت کی پالیسیاں اقتصادی سست روی کو جنم دے رہی ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ جی ایس ٹی نظام میں وسیع اصلاحات کی جائیں، ٹیکس دہشت گردی کا ماحول ختم کیا جائے اور چند مخصوص کارپوریٹ گروپس کو فائدہ پہنچانے کی پالیسی ترک کی جائے۔
جے رام رمیش نے 16 جولائی کو جاری اس رپورٹ کے اہم نکات اپنی ایکس پوسٹ میں پیش کیے۔ رپورٹ کے مطابق، کئی ہائی-فریکوئنسی اقتصادی اشاریے یا تو سست پڑ چکے ہیں یا دباؤ میں ہیں، جن میں کریڈٹ، برآمدات اور جی ایس ٹی کلیکشن شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت جس ترقی کا دعویٰ کر رہی ہے، اس کے برعکس زمینی حقائق مختلف ہیں۔انہوں نے رپورٹ کے اس پہلو کو بھی نمایاں کیا جس میں بتایا گیا ہے کہ نجی کھپت میں کوئی خاص تیزی نہیں آئی ہے، خاص طور پر ریئل اسٹیٹ کی فروخت اور دو پہیہ و چار پہیہ گاڑیوں کی خریداری میں سستی نمایاں ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2025-26 کے ابتدائی مہینے صنعتی سرگرمیوں کے لحاظ سے کمزور ثابت ہوئے ہیں۔ بجلی اور ڈیزل کی کھپت، نیز درمیانی اور بھاری کمرشل گاڑیوں کی فروخت میں بھی کمی آئی ہے، جو صنعتی سرگرمیوں کے جمود کی نشاندہی کرتی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ زرعی پیداوار کی قیمتیں، جو دیہی معیشت کی حالت کو ظاہر کرتی ہیں، بدستور کمزور ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ دیہی عوام کی خریداری کی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے، جو مجموعی طلب میں کمی کی ایک بڑی وجہ ہے۔
جے رام رمیش نے کارپوریٹ سیکٹر سے متعلق رپورٹ کے مشاہدات کو بھی اہم قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق، بڑی کمپنیاں نقدی کے بہاؤ پر توجہ دے رہی ہیں اور آزاد مالی وسائل کو بڑھانے کے لیے تنخواہوں اور سرمایہ جاتی اخراجات میں کٹوتی کر رہی ہیں۔ اس کا اثر روزگار کے مواقع اور سرمایہ کاری دونوں پر پڑ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ معیشت کو اس وقت ایک بڑے ’بوسٹر ڈوز‘ کی ضرورت ہے، جو صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ٹیکس نظام کو شفاف بنایا جائے، جی ایس ٹی میں اصلاحات کی جائیں اور سب کو یکساں موقع فراہم کیا جائے۔ چند مخصوص کارپوریٹ گروپوں کو سرکاری پالیسیوں کے ذریعے فائدہ پہنچانا مجموعی معیشت کے لیے نقصان دہ ہے۔جے رام رمیش کے مطابق، یہ وقت ہے کہ حکومت ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کے دعوے پر سنجیدگی سے عمل کرے، محض تشہیر سے معیشت کی حالت نہیں بدلے گی۔
*کانوڑیے اب یاترا کے دوران اب بھکت ہاکی، ڈنڈا اور ترشول نہیں رکھ پائیں گے*
لکھنو:(ایجنسیز)کانوڑ یاترا کے دوران ہو رہی مار پیٹ اور ہنگامہ کے بڑھتے واقعات کو دیکھتے ہوئے اتر پردیش پولیس نے سختی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سہارنپور رینج کے ڈی آئی جی ابھشیک سنگھ نے کانوڑ یاترا سے متعلق بنے اصولوں پر سختی سے عمل کرنے کی ہدایت افسران کو دے دی ہے۔ ڈاک کانوڑ سے متعلق بھی سخت ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
موصولہ اطلاع کے مطابق سہارنپور، شاملی اور مظفر نگر کی طرف سے کانوڑ یاترا میں کانوڑیوں کے لاٹھی ڈنڈے، ترشول اور ہاکی اسٹک لے کر چلنے پر پوری طرح پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بغیر سائلنسر کی بائک کے استعمال پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ڈی آئی جی ابھشیک سنگھ نے رینج کے افسران کو سخت ہدایت دی ہے کہ کانوڑیوں سے اصولوں پر عمل کرایا جائے۔ انھوں نے سہارنپور، شاملی اور مظفر نگر کے افسران کے ساتھ ساتھ کانوڑ یاترا یونین سے جڑے لوگوں سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ میٹنگ کی۔
اس میں انھوں نے سبھی سے ڈاک کانوڑ اور پیدل چلنے والے کانوڑیوں کے لیے جو اصول بنائے ہیں، ان سبھی اصولوں پر عمل کروانے کے لیے کہا ہے۔ابھشیک سنگھ نے کہا کہ کوئی بھی کانوڑیا اپنی یاترا کے دوران ہاکی اسٹک، ترشول، لاٹھی و ڈنڈے لے کر نہ چلے۔ اس کے علاوہ کچھ ڈاک کانوڑیے بغیر سائلنسر کی بائک سے سفر کرتے ہیں، جس کی وجہ سے حادثات ہو جاتی ہیں۔ اس طرح کی بائک کا استعمال بالکل بھی نہ کریں، ورنہ اس طرح کی بائک کو ضبط بھی کیا جا سکتا ہے۔ بڑی گاڑیوں کے ذریعہ کانوڑ لانے والے لوگ اس کا سائز اور ڈی جے کی لمبائی و چوڑائی کا خیال رکھیں۔